اک خواب ہے ، اِس خواب کو کھونا بھی نہیں ہے
تعبیر کے دھاگے میں پرونا بھی نہیں ہے

لپٹا ہوا ہے دل سے کسی راز کی صورت
اک شخص کہ جس کو مِرا ہونا بھی نہیں ہے

رکھنا ہے سرِ چشم اِسے ساکت و جامد
پانی میں ابھی چاند بھگونا بھی نہیں ہے

ہر چند ترے نقشِ کفِ پا میں ہے لیکن
یہ دل کسی بچے کا کھلونا بھی نہیں ہے

وابستہ ہے مجھ سے کہ توُ ہے بھی کہ نہیں ہے
جب میں نہیں تجھ میں، ترا ہونا بھی نہیں ہے

یہ عشق و محبت کی روایت بھی عجب ہے
پایا نہیں جس کو، اُسے کھونا بھی نہیں ہے

جس شخص کی خاطر ترا یہ حال ہے خاورؔ
اُس نے ترے مرجانے پہ رونا بھی نہیں ہے