کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا

تُو بڑے پیار سے بڑے چاوْ سے بڑے مان کے ساتھ

اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو

اور بےتابی سے فرقت کے خزاں لمحوں میں

تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو

میں تیرے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا

جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی

تیرے ہونٹوں کی حدت سے دہک سا جاتا

رات کو جب بھی تُو نیندوں کے سفر پر جاتی

مَرمَریں ہاتھ کا اک تکیہ بنایا کرتی

میں ترے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا

تیری زلفوں کو تیرے گال کو چوما کرتا

جب بھی تو بند قبا کھولنے لگتی جاناں

کاپنی آنکھوں کو ترے حُسن سے خیرہ کرتا

مجھ کو بےتاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ

میں تری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا

میں ترے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا

کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا

وصی شاہ”